معروف درسگاہ ندوۃ العلماء لکھنونے ڈاکٹرذاکرنائک کے خلاف میڈیاٹرائل کی مذمت کی
نائیک کا انتخاب صرف ایک اسکالر کے طور پر کیا گیا تھا،علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی نے پلہ جھاڑا
علی گڑھ12جولائی(ایس اونیوز/آئی این ایس انڈیا)علماء کرام اورمذہبی راہنماؤں نے رائے ظاہر کی ہے کہ حکومت کو اسلامی اسکالر ذاکر نائیک کے خلاف کارروائی کے معاملے پرانتہائی سے قدم اٹھانے چاہئیں۔ملک کے اعلیٰ اسلامی تعلیمی اداروں میں شمار ندوۃ العلماء لکھنوکے ترجمان مولانا سید حمزہ ندوی نے کہا کہ ویسے تو معاشرے کو بنیاد پرستی کو فروغ دینے والی کسی بھی چیز کے خلاف متحد ہو جانا چاہیے لیکن جس طرح سے ذاکر نائیک کو کسی انکوائری کا نتیجہ آئے بغیر گھیرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، وہ اچھی بات نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ کچھ معاملات کو لے کرہمارے اور ان کے اختلافات ہو سکتے ہیں، لیکن ابھی اس بات کے ثبوت نہیں ملے ہیں کہ ان کی تقریروں میں نفرت کا کوئی عنصر موجود تھا۔پیغام انسانیت کمیٹی کے جنرل سکریٹری مولانا سید بلال حسنی نے کہاکہ اہل حدیث نظریے کی تعلیم کے کچھ عناصر کو لے کر ہمارا رویہ ہمیشہ سے الگ رہا ہے۔اگرچہ اس نظریہ کے ماننے والوں کو اپنے نظریہ کی ا شاعت کاپوراحق ہے۔مگر ہمارا خیال ہے کہ اپنے نظریات کو ثابت کرنے کے لئے دوسرے نظریات کو غلط ٹھہرانا درست نہیں ہے۔تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ مناسب انکوائری کئے بغیر ذاکر نائیک کو غلط ٹھہرانے کی کوشش بالکل بھی درست نہیں ہے اورحکومت کو اس معاملے میں انتہائی احتیاط اور احتیاط سے کام لینا چاہیے۔حسنی نے کہا کہ ملک میں متعدد ایسے لوگ ہیں جونفرت پھیلا رہے ہیں اور ہر طرح کے اشتعال انگیز بیان دے رہے ہیں، لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو رہی ہے۔قانون تو سب کے لیے برابر ہونا چاہیے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی(اے ایم یو )کے پولٹیکل سائنس کے شعبہ کے صدر پروفیسر اسمار بیگ نے کہا کہ ذاکر نائیک کو لے کراے ایم یو کو تنازعہ میں گھسیٹنے کی کوشش بدقسمتی کی بات ہے۔انہوں نے کہاکہ اے ایم یو کورٹ میں رکن کے طور پر نائیک کی تین سال کی مدت ان کی تقاریر میں کسی بھی طرح کی رکاوٹ بتائے جانے سے پہلے ہی ختم ہو گئی تھی۔نائیک نے اے ایم یوکے کام کاج میں کبھی کوئی کردار نہیں نبھایا تھا۔اس وقت ان کے ساتھ کوئی تنازعہ نہیں منسلک کیا گیا تھا۔تاہم نائیک نے اے ایم یو کورٹ کی کسی بھی اجلاس میں حصہ نہیں لیا اور یہاں تک کہ وہ اے ایم یو آئے بھی نہیں۔اے ایم یو کے ترجمان راحت ابرار نے کہا کہ نائیک جس سلفی نظریے کی پیروی کرتے ہیں، اس کا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے کبھی رتی بھر بھی لینادینانہیں رہا۔اس کے علاوہ ایسے بنیاد پرست خیالات کا اے ایم یو میں استقبال ہونے کے دور دور تک کوئی امکان نہیں ہے۔نائیک کا انتخاب صرف ایک مذہبی عالم کے طور پر کیا گیا تھا۔